عوام کو درپیش مسائل اور انکا حل آج کل ہر عام آدمی بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ عتیق الرحمن قیصرانی |
ڈیرہ غازی خان( اے این این) عوام کو درپیش مسائل اور انکا حل آج کل ہر عام آدمی بہت سے مسائل کا شکار ہے بہت سی الجھنوں میں مبتلا ہے مشکلات اتنی کے کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں کہیں دو وقت کی روٹی کی فکر کہیں بچوں کی تعلیم کی فکر کہیں مکان کے کرائے کی فکر کہیں صحت اور پینے کے صاف پانی کی فکر کہیں انصاف کی فکر کہیں سرکاری اداروں میں ضروری مسائل کی فکر ایک عام آدمی بہت سے مسائل کا شکار ہے اس مہنگائی کے طوفانی دور میں لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی کے پیسے تک موجود نہیں ہیں ادویات خریدنے کی سکت نہیں ہے لوگوں کو چھت میسر نہیں ہے لوگوں کے پاس بچوں کی فیس کے پیسے نہیں ہیں زندگی اجیرن بن کر رہ گئی ہے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں بچے فروخت کرنے اور اپنے معصوم بچوں کو انہی مسائل کی وجہ سے اپنے پیٹ کے ساتھ باندھ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ہر روز اک نیا سانحہ جنم لے رہا ہے پالیسی ساز ٹس سے مس نہیں ہورہے دن دیہاڑے لوگوں کے ساتھ لوٹ مار کے واقعات سرزد ہورہے ہیں قانون شکن قانون کی رٹ ماننے کو تیار نہیں ہیں افسوس کے ساتھ ناجانے اس ملک خداد پاکستان کو کس کی نظر لگ گئی ہے حکومتیں صرف اپنے لیے پالیسیاں بنانے میں مصروف ہیں کوئی ایک پالیسی عام آدمی کی سہولت کیلئے نہیں بنارہے کہتے کہ ملک اس چیز کا متحمل نہیں ہے ملک صرف عام آدمی کو ریلیف دینے کا متحمل نہیں ہے اشرافیہ کیلئے تو پہلے سے بڑھ کر عیاشیاں ہیں اس ملک میں پسا تو اس ملک کا عام آدمی ہے کسان پسا ہے مزدور پسا ہے غریب دیہاڑی دار طبقہ پسا ہے سفید پوش پسا ہے اشرافیہ کیلئے تو یہ ملک جنت سے کم نہیں ہے قانون شکن تو اس ملک میں آزاد ہیں اور ایک شریف اور معزز آدمی کی عزت اس ملک میں تھانے کا سنگتری بھی تار تار کردیتا ہے کیا پاکستان چند خاندانوں کی بادشاہت کے لیے بنا تھا کیا پاکستان نسل در نسل چند لوگوں کی عیاشیوں کے لیے بنا تھا کیا پاکستان موروثی سیاستدانوں کے لاڈلے پن اٹھانے کیلئے بنا تھا اس ملک میں غریب آدمی کا بچہ جس میں ہر طرح کا ٹیلنٹ بھی موجود ہے وہ تو ہر بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور خاندانی رائیسوں کی پاگل بھی اس قوم کیلئے لائق اور سیانے بنے ہوئے ہیں غریبوں کے بچے پائلٹ بن سکتے ہیں غریبوں کے بچے انجینئر بن سکتے ہیں غریبوں کے بچے ڈاکٹر بن سکتے ہیں غریبوں کے بچے پروفیسر بن سکتے ہیں غریبوں کے بچے اس ملک کی پولیس میں بھرتی ہوسکتے ہیں اس ملک کی فوج میں بھرتی ہوکر اپنی کمال مہارتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں مگر یہی غریب جسے اس ملک کا اشرافیہ اپنی عیاشیوں کیلئے انہی سے پروٹوکول لینے کے چکر میں انہیں پارلیمنٹ تک نہیں پہنچنے دیتے یاد رکھنا غریب کیلئے پالیسیاں غریب ہی بنائے گا کوئی سرمایہ دار نہیں کوئی جاگیر دار نہیں کوئی موروثی سیاست دان نہیں موجودہ حکمران تو اپنے اور اپنے بچوں کیلئے پالیسیاں بنانے میں مصروف ہیں انہیں تو اپنے بچوں سے فرصت نہیں یہ غریب کے بچوں کے بارے میں کیا سوچیں گے اور کبھی بھی وی آئی پی پروٹوکول میں رہنے والے اس ملک کو صحیح راہ پر گامزن نہیں کرسکتے اس ملک کو صرف اس ملک کے اصلی اور حقیقی وارث جن کا مرنا جینا اولادیں جائیدادیں علاج اس ملک سے وابستہ ہے وہی صحیح راہ پر گامزن کرینگے باقی یہ مجودہ اور سابقہ حکمران جن کو الیکشن ٹکٹ کے لیے اہل صرف اور صرف اہل اشرافیہ اور سرمایہ دار نظر آئے انہیں کبھی عام آدمی نظر نہیں آئے گا عام آدمی کو یہ سرمایہ دار طبقہ صرف تماشے کو طور پر استعمال کرتا ہے کہ عام آدمی ہمارے جلسوں کی زینت بنے ہمارے لیے پنڈال سجائے ہماری جلسہ گاہوں کو بھرے ہماری پارٹیوں کے جھنڈے لگائے ہماری خاطر اپنے ہی بھائی اپنے ہی عزیز اپنے محلے دار اپنی ساتھی عام آدمی سے لڑ جائے اس مار ڈالے اور عیاشی یہ اشرافیہ اور انکی اولادیں کریں کیوں یہ عام آدمی کو سوچنا پڑے گا پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ بھی سیاسی جماعتیں ہیں چھوٹی سیاسی جماعتیں جو عام آدمی کو اختیار دینا چاہتی ہیں انہیں اسمبلی میں لیجانا چاہتی ہیں عوام انہیں موقع دیں انہیں سپورٹ کریں بجائے انکے جو پچھلے چھتر سال سے سوائے دھوکہ دہی کے کچھ نہیں کررہیں عوام کو اگر بہترین اور ترقی یافتہ خوشحال امن والا عظیم ملک چاہیے تو خود آگے بڑھ کر اس ملک کا اقتدار حاصل کریں خود الیکشن لڑیں پچھلے چھتر سال سے تجربہ کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام تبدیلی نہیں لاسکا تو اب کیا تبدیلی لائیں گے یہ سابقہ موجودہ حکمرانعام آدمی کو اختیار دیں
ایک تبصرہ شائع کریں