تحریر عتیق الرحمن قیصرانی ضلعی صدر امن ترقی پارٹی ڈیرہ غازی خان
سیلاب زدگان 2022 اور انکی بحالی کام حکومت ابھی تک شروع نہیں کرسکی جہاں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی کی بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں لوگوں کے زرعی رقبے پانی کی ندیوں میں تبدیل ہوگئے لوگوں کے مکانات تباہ ہوگئے عوام کی جمع پونجی سیلاب کی بے رحم موجوں کی نظر ہوگئ بچیوں کی شادیوں کا جہینز بھی پانی بہاکر لے گیا وہیں سیلاب کی وجہ سے پنجاب کے ضلع تونسہ شریف کے پسماندہ علاقوں کے سکول سڑکیں ڈسپنسریاں ہر چیز پانی بہاکر لے گیا حکومت نے وقتی طور پر عوام کو راشن اور نقدی کے چند ہزار دیکر خود کو بری الزمہ قرار دے لیا سیلاب کی وجہ لوگ آج بھی حکومتی امداد کے منتظر ہے حکومت کو عالمی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر سیلاب زدگان کیلئے امداد ملی مگر ناجانے 2005 کے زلزلے کی طرح یہ امداد بھی خردبر ہوگئی متاثرین کو کچھ نہیں ملا ضلع تونسہ اور وہوا کے اکثر علاقے شہری آبادی سے کٹ گئے بڑے پیمانے پر رابطہ سڑکیں مکمل تباہ ہوگئیں جن میں واہوا ٹو مٹھوان باجھہ روڈ واہوا ٹو کوٹ قیصرانی روڈ واہوا ٹو لکھانی روڈ اندرون شہر واہوا کی سڑکیں گلیاں جن کا نام ونشان بھی مٹ گیا اس اہم ترین مسلے کی جانب حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت کی کوئی توجہ نہیں نا ہی ارکان اسمبلی اس مسلے پر کوئی آواز اٹھاتے ہیں عوام کی بہت بڑی تعداد جو سیلاب سے متاثرہ ہے بہت ساری مشکلات کا شکار ہے صحت کے مسائل تعلیم کے مسائل روزگار کے مسائل اور روز مرہ کی زندگی کی ضروریات کے لیے لوگوں کو مشکل ترین سفر طے کرنا پڑتا ہے اس مشکل سفر کی وجہ سے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے عوام شدید پریشانی میں مبتلا ہیں دیہاتوں میں پہلے سے ہی نا تعلیم کے وسائل تھے نا صحت کے چند سڑکیں بنی ہوئی تھی لوگ صحت اور تعلیم اور روزگار کیلئے شہری آبادی کا رخ کرتے تھے اب جبکہ سڑکیں مکمل تباہ ہوچکی ہیں ابھی تک کوئی بھی سرکاری ادارہ یا صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت نے اس مسلے پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے متاثرین سیلاب شدید پریشانی میں مبتلا ہیں دیہاتوں میں کوئی مریض ہو جائے تو شہر شفٹ ہونے سے پہلے اگلے جہاں شفٹ ہوجاتا ہے خواتین بزرگ بچے سب ہی دوہائی دے رہے ہیں کہ ہم بھی پاکستانی ہیں ہماری طرف بھی خدا آرا کو توجہ دی جائے ہمیں بھی انسان تصور کیا جائے ہمیں بھی جینے کا حق دیا جائے متاثرین سیلاب زدگان آج بھی بے یارو مددگار کانے لکڑی کی بنی جھگیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ناجانے ہماری حکومتیں کیوں عوامی مسائل حل کرنے سے کنارہ کشی کرتیں ہیں عوامی مسائل ہر آئے روز حکومت کا منہ چڑاہ رہے ہوتے ہیں مگر حکومتی مشینری ٹس سے مس نہیں ہوتی سیلاب سے متاثرہ لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں یقین جانیے جب متاثرہ علاقوں میں جائیں تو وہاں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے معصوم بچے جن کے پاؤں کے جوتے تک نہیں شلوار اور قمیص اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے پھٹی ہوئی ہاتھ کی تلیاں اور پاؤں کی ایڑیاں بزرگ مرد و خواتین سب کی حالت ایسی جیسے یہ پاکستان نہیں بلکہ شاید افریقہ کے کسی جنگل میں رہنے والے لوگ ہوں غربت اور بے روزگاری تو پہلے ہی سے یہاں اپنے ڈیرے جماچکی تھی مگر رہی سہی کسر 2022 کے سیلاب نے نکال دی روکھی سوکھی روٹی ٹوٹی پھوٹی چھت پھٹے پرانے کپڑے ادویات تعلیم صحت صاف پانی اور زندگی تقریباً ہر بنیادی حقوق سے محروم یہ لوگ حکومت اور مخیر حضرات کی امداد کے منتظر ہیں مشکلات میں گھرے یہ ہمارے اپنے ہاں ہمارے اپنے پاکستانی بھائی جو ہر مشکل وقت میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں لگانا بھی چاہیے کیونکہ وطن عزیز سے یہاں کے باسیوں کو کوئی گلہ نہیں گلہ تو حکومت وقت سے ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اگر اقتدار سے نوازا ہے تو اس اقتدار کو اپنے لیے راہ نجات بنائیں مخیر حضرات جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے بے پناہ بے حساب رزق حلال سے نوازا ہے وہ بھی ان جیسے حقدار اور غریب اور مجبور لوگوں کی مدد فرمائے حکومت وقت سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ جو سڑکیں سکول سیلاب سے مکمل تباہ ہوگئے تھے انکی بحالی کا کام فلفور شروع کیا جائے اور تمن قیصرانی کے تمام سڑکیں جن میں واہوا ٹو لزدان واہوا ٹو کوٹ قیصرانی واہوا ٹو مٹھوان باجھہ روڈ فلفور تعمیر کیے جائیں اور مضافات میں جہاں سے رودکوہی گزرتی ہے اسکے پشتوں کو بھی از سر نو تعمیر کیا جائے
تحریر عتیق الرحمن قیصرانی ضلعی صدر امن ترقی پارٹی ڈیرہ غازی خان
سیلاب زدگان 2022 اور انکی بحالی کام حکومت ابھی تک شروع نہیں کرسکی جہاں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی کی بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں لوگوں کے زرعی رقبے پانی کی ندیوں میں تبدیل ہوگئے لوگوں کے مکانات تباہ ہوگئے عوام کی جمع پونجی سیلاب کی بے رحم موجوں کی نظر ہوگئ بچیوں کی شادیوں کا جہینز بھی پانی بہاکر لے گیا وہیں سیلاب کی وجہ سے پنجاب کے ضلع تونسہ شریف کے پسماندہ علاقوں کے سکول سڑکیں ڈسپنسریاں ہر چیز پانی بہاکر لے گیا حکومت نے وقتی طور پر عوام کو راشن اور نقدی کے چند ہزار دیکر خود کو بری الزمہ قرار دے لیا سیلاب کی وجہ لوگ آج بھی حکومتی امداد کے منتظر ہے حکومت کو عالمی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر سیلاب زدگان کیلئے امداد ملی مگر ناجانے 2005 کے زلزلے کی طرح یہ امداد بھی خردبر ہوگئی متاثرین کو کچھ نہیں ملا ضلع تونسہ اور وہوا کے اکثر علاقے شہری آبادی سے کٹ گئے بڑے پیمانے پر رابطہ سڑکیں مکمل تباہ ہوگئیں جن میں واہوا ٹو مٹھوان باجھہ روڈ واہوا ٹو کوٹ قیصرانی روڈ واہوا ٹو لکھانی روڈ اندرون شہر واہوا کی سڑکیں گلیاں جن کا نام ونشان بھی مٹ گیا اس اہم ترین مسلے کی جانب حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت کی کوئی توجہ نہیں نا ہی ارکان اسمبلی اس مسلے پر کوئی آواز اٹھاتے ہیں عوام کی بہت بڑی تعداد جو سیلاب سے متاثرہ ہے بہت ساری مشکلات کا شکار ہے صحت کے مسائل تعلیم کے مسائل روزگار کے مسائل اور روز مرہ کی زندگی کی ضروریات کے لیے لوگوں کو مشکل ترین سفر طے کرنا پڑتا ہے اس مشکل سفر کی وجہ سے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے عوام شدید پریشانی میں مبتلا ہیں دیہاتوں میں پہلے سے ہی نا تعلیم کے وسائل تھے نا صحت کے چند سڑکیں بنی ہوئی تھی لوگ صحت اور تعلیم اور روزگار کیلئے شہری آبادی کا رخ کرتے تھے اب جبکہ سڑکیں مکمل تباہ ہوچکی ہیں ابھی تک کوئی بھی سرکاری ادارہ یا صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت نے اس مسلے پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے متاثرین سیلاب شدید پریشانی میں مبتلا ہیں دیہاتوں میں کوئی مریض ہو جائے تو شہر شفٹ ہونے سے پہلے اگلے جہاں شفٹ ہوجاتا ہے خواتین بزرگ بچے سب ہی دوہائی دے رہے ہیں کہ ہم بھی پاکستانی ہیں ہماری طرف بھی خدا آرا کو توجہ دی جائے ہمیں بھی انسان تصور کیا جائے ہمیں بھی جینے کا حق دیا جائے متاثرین سیلاب زدگان آج بھی بے یارو مددگار کانے لکڑی کی بنی جھگیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ناجانے ہماری حکومتیں کیوں عوامی مسائل حل کرنے سے کنارہ کشی کرتیں ہیں عوامی مسائل ہر آئے روز حکومت کا منہ چڑاہ رہے ہوتے ہیں مگر حکومتی مشینری ٹس سے مس نہیں ہوتی سیلاب سے متاثرہ لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں یقین جانیے جب متاثرہ علاقوں میں جائیں تو وہاں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے معصوم بچے جن کے پاؤں کے جوتے تک نہیں شلوار اور قمیص اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے پھٹی ہوئی ہاتھ کی تلیاں اور پاؤں کی ایڑیاں بزرگ مرد و خواتین سب کی حالت ایسی جیسے یہ پاکستان نہیں بلکہ شاید افریقہ کے کسی جنگل میں رہنے والے لوگ ہوں غربت اور بے روزگاری تو پہلے ہی سے یہاں اپنے ڈیرے جماچکی تھی مگر رہی سہی کسر 2022 کے سیلاب نے نکال دی روکھی سوکھی روٹی ٹوٹی پھوٹی چھت پھٹے پرانے کپڑے ادویات تعلیم صحت صاف پانی اور زندگی تقریباً ہر بنیادی حقوق سے محروم یہ لوگ حکومت اور مخیر حضرات کی امداد کے منتظر ہیں مشکلات میں گھرے یہ ہمارے اپنے ہاں ہمارے اپنے پاکستانی بھائی جو ہر مشکل وقت میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں لگانا بھی چاہیے کیونکہ وطن عزیز سے یہاں کے باسیوں کو کوئی گلہ نہیں گلہ تو حکومت وقت سے ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اگر اقتدار سے نوازا ہے تو اس اقتدار کو اپنے لیے راہ نجات بنائیں مخیر حضرات جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے بے پناہ بے حساب رزق حلال سے نوازا ہے وہ بھی ان جیسے حقدار اور غریب اور مجبور لوگوں کی مدد فرمائے حکومت وقت سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ جو سڑکیں سکول سیلاب سے مکمل تباہ ہوگئے تھے انکی بحالی کا کام فلفور شروع کیا جائے اور تمن قیصرانی کے تمام سڑکیں جن میں واہوا ٹو لزدان واہوا ٹو کوٹ قیصرانی واہوا ٹو مٹھوان باجھہ روڈ فلفور تعمیر کیے جائیں اور مضافات میں جہاں سے رودکوہی گزرتی ہے اسکے پشتوں کو بھی از سر نو تعمیر کیا جائے
ایک تبصرہ شائع کریں